اگر میں شوہر کے ساتھ ہوتی تو گولیاں اپنے سینے پر کھاتی لیکن۔۔۔ شہید عمران عباس کی اہلیہ اس دن کا احوال بتاتے ہوئے

دو روز قبل 7 مارچ کو پاکستان کے شہر راولپنڈی میں انتہائی افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایس ایچ او انسپیکٹر میاں عمران عباس کو موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔

تاہم اس حوالے سے عمران عباس کی اہلیہ نے واقعہ کے روز کا سارا احوال بتایا۔

عمران عباس کی اہلیہ طیبہ عمران کا کہنا تھا کہ ''اکثر اوقات ایسا ہوتا کہ ہم لوگ کہیں باہر جانے کا منصوبہ بناتے، بچوں کو کہتے مگر پھر عمران کی کوئی نہ کوئی مصروفیت نکل آتی تھی جس پر میں بڑی مشکل سے بچوں کو بہلاتی تھی''۔



انہوں نے بتایا کہ ''حیرت انگیز طور پر وقوعہ والے روز عمران بچوں کو ساتھ لے کر چلے گئے۔ میں سوچتی ہوں کہ پتہ نہیں مجھے کیوں چھوڑ گئے میں نے تو کبھی بھی عمران کو تنہا نہیں چھوڑا تھا۔ اگر اس دن بھی میں اپنے شوہر کے ساتھ ہوتی تو یہ گولیاں اپنے سینے پر کھاتی لیکن ایسا نہیں ہوا''۔

تاہم حملے میں ان کے بچے محفوظ رہے جس کے بارے میں طیبہ عمران کا کہنا تھا کہ ''بچے ابھی تک عجیب و غریب صورتحال کا شکار ہیں۔ ان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ وہ بالکل گم صُم ہیں''۔


واقعہ والا روز

پولیس انسپیکٹر میاں عمران عباس کو سات مارچ کو اس وقت قتل کر دیا گیا تھا جب وہ اپنے بچوں کے ہمراہ مونال ریسٹورنٹ راولپنڈی سے لنچ کرنے کے بعد واپس گھر آ رہے تھے۔


تاہم ان کے قتل کا مقدمہ ان کے ایک ساتھی پولیس انسپیکٹر اور ایس ایچ او تھانہ کینٹ راولپنڈی اعزاز عظیم کی درخواست پر درج کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے اُن کا میاں عمران عباس ایس ایچ او تھانہ ریس کورس سے تقریباً ساڑھے چار بجے کے قریب رابطہ ہوا۔

رپورٹ کے مطابق اعزاز عظیم کو میاں عمران عباس نے کہا کہ وہ بچوں کے ہمراہ ریسٹورنٹ آئے ہوئے ہیں، یہاں سے فارغ ہو کر بچوں کو گھر چھوڑیں گے اور پھر اکھٹے ہوجائیں گے۔

اعزاز عظیم نے درج مقدمہ میں بتایا کہ جب میاں عمران عباس اپنے بچوں کے ہمراہ ریسٹورنٹ سے باہر نکلے تو وہ سب انسپیکٹر محسن حیات اور اے ایس آئی سرور کے ہمراہ ان کے پیچھے روانہ ہوئے۔ جب اُن کی گاڑیاں جم خانہ راولپنڈی کے قریب پہنچیں تو موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے فائرنگ کر دی۔

ایف آئی آر کے مطابق گاڑی بے قابو ہوئی اور پھر فٹ پاتھ سے ٹکرا گئی۔ اُن لوگوں نے ملزمان کا پیچھا کیا مگر وہ رش کا فائدہ اٹھا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تاہم خوش قسمتی سے بچوں کو کچھ نہیں ہوا۔


اعزاز عظیم کا کہنا تھا کہ ''وہ اور میاں عمران عباس ایک ہی سرکل میں فرائض انجام دے رہے تھے جس وجہ سے اُن کے علم میں ہے کہ میاں عمران عباس انتہائی حساس مقدمات کی تفتیش کر رہے تھے''۔


پولیس افسران نے بتایا کہ ان کے اپنے والد میاں عباس ایک انکاؤنٹر کے دوران ہلاک ہوئے تھے جس وجہ سے وہ اس حوالے سے انتہائی جذباتی تھے۔

تاہم ان کی اہلیہ نے یہ بھی کہا کہ ''عمران جیسا بیٹا، والد اور خاوند شاید دنیا میں کوئی دوسرا نہیں ہوگا۔ شادی کے اتنے برسوں میں مجھے نہیں یاد کہ انھوں نے کبھی مجھ سے تلخ کلامی کی ہو۔ وہ جتنے بھی مصروف ہوتے اپنی والدہ کی خیر خیریت ضرور پوچھتے تھے۔ جس وقت بھی گھر آتے سب سے پہلے والدہ کے کمرے میں جاتے۔ ان کی ٹانگیں دباتے، پھر بچوں کے پاس آتے تھے''۔


طیبہ عمران کا یہ بھی کہنا تھا کہ ''عمران کی والدہ اپنے خاوند اور ان کے سسر کا دکھ اپنے بیٹے کی کامیابیوں اور پوتے، پوتیوں کے ساتھ بھول چکی تھیں، مگر اب یہ دکھ پھر سے تازہ ہوگیا ہے''۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ''جہاں پر میری ساس کو اپنے بیٹے کا غم کھائے جارہا ہے وہاں پر ان کو اب اپنے خاوند محمد عباس کی یاد بھی ستا رہی ہے''۔
خیال رہے کہ مقتول کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
بشکریہ بی بی سی

Comments

Popular posts from this blog

TRAVEL GUIDELINES AND REQUIREMENTS DUE TO COVID-19 (PAKISTAN)

پاکستان کیلیے پروازیں ، قطر ایئرویز کا بڑا اعلان

Toyota Corolla Altis 1.8 GR Sport (2019) review